قا ئد اعظم محمد علی جناح اپنے وقت میں ہندوستانی سیاست میں ایک اہم شخصیت تھے اور وہ ایک سیاست دان سے بڑھ کے تھے۔ ان کا شمار ان چند عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی قابلیت کے زریعے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ مصنف سٹینلی وولپرٹ نے اپنی کتاب ’جناح آف پاکستان میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے کردار کو نہایت کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ مصنف نے جناح کو صرف ایک لیڈرکے طور پر ان کی زندگی پر تبصرہ نہیں کیا بلکہ ایک طالب علم، وکیل اور شوہر کے طور پر بھی ان کی زندگی کا خاقا پیش کیا ہے۔
اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سب سے عظیم سفیر کہا جاتا تھا کیونکہ ان کا یقین تھا کے ہندو اور مسلمان بھائی ہیں اور ان دونوں برادریوں کو ایک ساتھ خوشی خوشی سے رہنا چاہیے لیکن جناح نے ہمیشہ ہندو اور مسلمانوں کے مابین رشتے کو اس نظر سے نہیں دیکھا ۔ تقریباً چوبیس سالوں کے بعد جناح نے ہندو اور مسلمانوں کے رشتے کوپہلےسے بالکل برعکس دیکھنا شروع کردیا۔ مصنف نے اس کتاب میں ہندوستانی تاریخ کی سات دہائیوں کو بےحد مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جناح کی سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ مصنف نے ان کی زاتی زندگی پر بھی روشنی پھینکی ہے۔ ان کی بیگم رتن بایئ پٹیٹ جناح، موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہہرو کے جناح کے ساتھ تعلقات کو بھی واظح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ کتاب قاری کو کراچی اور بومبے کے ساحل سمندرسے لے کر زیارت کے پہاڑوں تک کا سفر کراتی ہے۔ کتاب میں جناح کی ضد کرنے والی عادت پر اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ ایک مدعا بیان کر کے اس پر قائم و دائم رہتے تھے۔ چوبیس سال تک وہ ایک ہی نظریے پر قائم رہے جو کے ہندو مسلم اتحاد تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس معاملے میں اپنی سوچ کو تبدیل کر لیا، اب ان کا ماننا تھا کہ ہندووٗں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اب ایک اہم فیصلہ لے لیا تھا جو کہ پاکستان کو وجود میں لانا تھا۔
جناح نے ۱۹۱۸ میں ایک امیر پارسی تاجر جناب ڈن شا پٹیٹ کی صاحبزادی رتن بایٗ پٹیٹ سے نکاح کر لیا، دونوں کے درمیان محبت سے بھرا ایک گہرا رشتہ تھا۔ رتی نے یہ نکاح اپنے والدین کی خواہشات کے خلاف کیا تھا اور جناح سےمحبت کی خاطر وہ اپنے گھر اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر آئیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت ختم ہوتی گئی، جناح اپنے کام میں اتنے مصروف ہوگئے اور انہوں نے اپنی زوجہ کو نظرانداز کرنا شروع کردیا مگر اس سب کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے تھے۔ وولپرٹ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیٗں: "جنازے کی رسم غم سے بھری ہوئی تھی۔ جنازے کے پانچ گھنٹوں کے دوران جناح با لکل خاموش رہے۔ جیسے ہی رتی کی میت کو سپردخاک کرنے کے لئے قبر میں اُتارا جا رہا تھا ، ان کے سب سے قریبی رشتےدار ہونے کے ناطے سے جناح نے اُن کی قبر پر مُٹھی بھر کے خاک پھینکی ۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ ایک بچے کی مانند کئی منٹوں تک روتے رہے۔ اُس دن میں نے جناح کو انسانی کمزوری کے ساے کو دھوکہ دیتے ھوےٗ دیکھا‘‘۔ اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بھی جناح کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ فاطمہ جناح نے اپنے بھایی کا ساتھ دینے کے لئے اپنا ڈنٹسٹری کا پیشہ چھوڑ دیا، آنے والے وقتوں میں وہ اپنے بھاٰٰیئ کے شانہ بشانہ رہیں۔
اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سب سے عظیم سفیر کہا جاتا تھا کیونکہ ان کا یقین تھا کے ہندو اور مسلمان بھائی ہیں اور ان دونوں برادریوں کو ایک ساتھ خوشی خوشی سے رہنا چاہیے لیکن جناح نے ہمیشہ ہندو اور مسلمانوں کے مابین رشتے کو اس نظر سے نہیں دیکھا ۔ تقریباً چوبیس سالوں کے بعد جناح نے ہندو اور مسلمانوں کے رشتے کوپہلےسے بالکل برعکس دیکھنا شروع کردیا۔ مصنف نے اس کتاب میں ہندوستانی تاریخ کی سات دہائیوں کو بےحد مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جناح کی سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ مصنف نے ان کی زاتی زندگی پر بھی روشنی پھینکی ہے۔ ان کی بیگم رتن بایئ پٹیٹ جناح، موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہہرو کے جناح کے ساتھ تعلقات کو بھی واظح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ کتاب قاری کو کراچی اور بومبے کے ساحل سمندرسے لے کر زیارت کے پہاڑوں تک کا سفر کراتی ہے۔ کتاب میں جناح کی ضد کرنے والی عادت پر اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ ایک مدعا بیان کر کے اس پر قائم و دائم رہتے تھے۔ چوبیس سال تک وہ ایک ہی نظریے پر قائم رہے جو کے ہندو مسلم اتحاد تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس معاملے میں اپنی سوچ کو تبدیل کر لیا، اب ان کا ماننا تھا کہ ہندووٗں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اب ایک اہم فیصلہ لے لیا تھا جو کہ پاکستان کو وجود میں لانا تھا۔
جناح نے ۱۹۱۸ میں ایک امیر پارسی تاجر جناب ڈن شا پٹیٹ کی صاحبزادی رتن بایٗ پٹیٹ سے نکاح کر لیا، دونوں کے درمیان محبت سے بھرا ایک گہرا رشتہ تھا۔ رتی نے یہ نکاح اپنے والدین کی خواہشات کے خلاف کیا تھا اور جناح سےمحبت کی خاطر وہ اپنے گھر اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر آئیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت ختم ہوتی گئی، جناح اپنے کام میں اتنے مصروف ہوگئے اور انہوں نے اپنی زوجہ کو نظرانداز کرنا شروع کردیا مگر اس سب کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے تھے۔ وولپرٹ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیٗں: "جنازے کی رسم غم سے بھری ہوئی تھی۔ جنازے کے پانچ گھنٹوں کے دوران جناح با لکل خاموش رہے۔ جیسے ہی رتی کی میت کو سپردخاک کرنے کے لئے قبر میں اُتارا جا رہا تھا ، ان کے سب سے قریبی رشتےدار ہونے کے ناطے سے جناح نے اُن کی قبر پر مُٹھی بھر کے خاک پھینکی ۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ ایک بچے کی مانند کئی منٹوں تک روتے رہے۔ اُس دن میں نے جناح کو انسانی کمزوری کے ساے کو دھوکہ دیتے ھوےٗ دیکھا‘‘۔ اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بھی جناح کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ فاطمہ جناح نے اپنے بھایی کا ساتھ دینے کے لئے اپنا ڈنٹسٹری کا پیشہ چھوڑ دیا، آنے والے وقتوں میں وہ اپنے بھاٰٰیئ کے شانہ بشانہ رہیں۔
جناح ایک متحمل اور نہایت پرامید شخص تھے، اُنھوں نے زندگی میں کئی دفعہ ناکامیوں کا سامنہ کیا اپنی زاتی زندگی میں اور اپنے سیاسی کیئریئر کے دوران لیکن بےحد کامیابی کے ساتھ اُنھوں نے اپنے راستے سے ان پتھروں کا خاتمہ کیا اور اپنا راستہ اس مقصد کے لیئے صاف کیا جس کے لیئے وہ اپنی زندگی وقف کر چکےُ تھے: پاکستان۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کا نام دینا جناح تھا۔ جناح کی زندگی کے آخری سالوں میں دینا نے اپنے والد سے ایک پارسی لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جناح نے سراسر انکار کردیا، انھوں نے کہا: ’’ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے رہتے ہیں اور تم کسی سے بھی نکاح کر سکتی ہو‘‘۔ جواب دیتے ہوےٗ دینا نے اپنے والد کو یاد دلایا: ’’ہندوستان میں کئی
لاکھوں مسلمان لڑکیاں تھیں لیکن آپ نے بھی تو امی سے شادی کی تھی‘‘۔
ان سب کٹھن وقتوں کے باوجود بھی جناح نے کبھی ہار نہیں مانی اور اپنا مقصد پورا کر کے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ اپنی زندگی کا آخری سفر انھوں نے زیارت میں کیا اور کراچی میں وفات پا گئے۔
سٹینلی وولپرٹ نے اپنی اس کتاب میں محمد علی جناح کی زندگی کو واظح طور پر بیان کر کے ان کے کردار کو نہایت کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
نہایت اعلیٰ تبصرہ کیا ہے جناب نے
ReplyDelete